بھارت کے بعد اسرائیل کو بھی دومحاذوں کی جنگ کا خوف لاحق ہو گیا ہے۔ جنوبی ایشیا کی تزویراتی سیاست میں امریکا اور بھارت کو ہمیشہ اس بات کا خوف رہا ہے کہ اگر چین کے ساتھ بھارت کی کوئی مڈ بھیڑ ہوتی ہے تو پاکستان اس جنگ میں کود کر کشمیر میں طاقت کا توازن اور اسٹیٹس کو توڑنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ اس طرح چین کے ساتھ مل کر طاقت کا توازن خراب کرنے اور جنگ کا پانسہ پلٹنے کے خدشے کے باعث امریکا نے ہمیشہ پاکستان پر ایک مستقبل دبائو قائم رکھا ہے۔ 1962 کی بھارت چین جنگ میں بھی چینی صدر مائو زے تنگ نے ایوب خان کو یہ پیشکش کی تھی کہ اگر پاکستان اس وقت کشمیر میں پیش قدمی کر ے گا تو چین بھارت کو اپنے ہاں مزید مصروف رکھنے کے لیے چین بھارت جنگ کو طوالت دے سکتا ہے مگر اس وقت امریکا نے مداخلت کرکے پاکستان کو اس جنگ میں کودنے سے روک دیا تھا۔ امریکا نے پاکستان کو یقین دلایا تھا کہ وہ اس کے بدلے میں مسئلہ کشمیر حل کرانے میں عملی مدد دے گا۔ یوں پاکستان تو اس جنگ میں نیوٹرل ہو گیا مگر امریکا کا یہ وعدہ کبھی وفا نہ ہو سکا۔ بھارت نے اس جنگ سے فارغ ہوتے ہی پاکستان کو آنکھیں دکھانا شروع کیں اور کشمیر کی زمینی صورت حال کو اپنے حق میں بدلنے کی کوششیں جاری رکھیں۔ اب یہی خوف امریکا کے ایک اور اسٹرٹیجک پارٹنر اسرائیل کو اس وقت لاحق ہوگیا ہے جب وہ غزہ کی پٹی میں محصور اور مقید نہتے عوام پر آتش و آہن کی برسات کیے ہوئے ہے۔

حماس پوری قوت سے اسرائیل کا مقابلہ کر رہی ہے اور لبنان کی سرحد سے حزب اللہ نے اسرائیل پر حملوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اسرائیل اور امریکا اس خوف کا شکار ہیں کہ اگر حماس کے ساتھ ساتھ حزب اللہ بھی باقاعدہ طور پر زمینی جنگ میں شریک ہوجاتی ہے تو اس سے جنگ کا پانسہ پلٹ سکتا ہے۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن اس نتیجے پر پہنچے ہیں اگر حماس کے ساتھ حزب اللہ بھی اس جنگ میں شریک ہوجاتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ امریکا اور ایران بھی اس جنگ میں بالواسطہ طور پر کود پڑیں گے اور یوں یہ جنگ عراق اور افغانستان کی جنگوں کی طرح طوالت اختیار کرجائے گی۔ امریکا کو ان دونوں جنگوں کا تازہ تلخ تجریہ ہے۔ اس لیے امریکی حکام اسرائیل کے سخت گیر عناصر کے ساتھ عرب ملکوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ حزب اللہ کو اس جنگ میں شریک ہونے سے روکنے کے لیے اپنا اثر رسوخ استعمال کریں۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب اسرائیل کو کسی طویل جنگ کی دلدل میں دھنسنے سے بچانا ہے کیونکہ مشرق وسطیٰ کی مسلمان آبادیوں میں گھرا اسرائیل کسی طویل لڑائی کا متحمل نہیں ہوسکتا اور اسرائیل دومحاذوں کی اس جنگ کی تاب نہیں لا سکے گا اوراس طرح مشرق وسطیٰ میں قائم اسٹیٹس کو ٹوٹ کر رہ جائے گا۔ امریکا اسرائیل کے ان سخت گیر عناصر کو بھی دومحاذوں کی جنگ کی طوالت کے مضمرات سے آگاہ کر رہا ہے کہ وہ حماس کے ساتھ ساتھ حزب اللہ کے ساتھ لڑائی کا شوق فضول ترک کردیں شاید یہی وجہ ہے اسرائیل اپنی پوری کوشش اور خواہش کے باوجود غزہ کی پٹی میں گراونڈ آپریشن کرنے سے کترا رہا ہے۔ اسرائیل کے اختیار میں ہوتا تو وہ پہلے دن ہی زمینی آپریشن کرکے غزہ کو خالی کراچکا ہوتا مگر ایک انجانا خوف انہیں اس انتہائی قدم سے روکے ہوئے ہے اور اب نیویارک ٹائمز نے اس انجانے خوف کو ایک باقاعدہ نام بھی دیا کہ وہ دومحاذوں کی جنگ کا خوف ہے جو اسرائیل کو زمینی آپریشن سے روکے ہوئے ہے۔

امریکا زمینی آپریشنوں کا ڈسا ہوا ہے۔ نائن الیون کے بعد فضا سے ڈیزی کٹر بموں کی کارپٹ بمنگ سے افغانستان میں تورا بورا کے پہاڑوں کو ریت اور بجری کے ڈھیروں میں بدلنے جب امریکی زمین پر اُترے تو یہی ان کی ناکامی کا پہلا دن ثابت ہوا۔ دوسال تک طالبان بھی افغانستان کے منظر سے غائب ہو کر امریکی فوج کے زمین پر اُترنے کا انتظار کرتے رہے۔ ان کے نمائندے میڈیا کو اعلانیہ بتاتے رہے کہ وہ امریکی فوج کے زمین پر اُترنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ جب امریکا زمین پر اُترا تو اس کا سامنا طالبان سے ہوتا چلا گیا اور یوں اس کا ہر قدم دلدل میں پڑتا چلا گیا۔ عراق کی کہانی بھی اس سے چنداں مختلف نہیں۔ اب امریکا اس تجربے کی بنیاد پر اسرائیل کو کسی ممکنہ جنگ کی طوالت سے دور رکھ رہا ہے۔ ایسے میں جب یہ دومحاذوں کی جنگ ہوگی تو اسرائیل کا حزب اللہ جیسی منظم ملیشیا کے حملوں کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں رہے گا اور حزب اللہ کا مطلب یہ ہے کہ ایک پورا متوازی اور متبادل بلاک اس جنگ میں شریک ہوگا۔ یوکرین کا بدلہ چکانے کے لیے کئی تجربہ کار کھلاڑی بھی یہاں پہنچ جائیں گے۔ امریکا اور عرب ملک اب اگر جنگ کے شعلوں پر پانی چھڑکتے نظر آئیں گے تو اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ وہ غزہ کے بچے کھچے مسلمانوں کی محبت میں یہ کر رہے ہیں بلکہ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہ غزہ کو اسرائیل کا افغانستان بننے سے بچانا اور اسے حزب اللہ کے عتاب سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔

اسرائیل اور بھارت کو درپیش دومحاذوں کی جنگ کے خوف کو امریکا ایک ہی انداز میں دور کررہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں علاقائی ممالک کو اس بات پر قائل کررہے ہیں کہ وہ حزب اللہ کو اس جنگ میں کودنے سے روکیں تاکہ خطے میں طاقت کا توازن بگڑنے نہ پائے اور اسی طرح جنوبی ایشیا میں دومحاذوں کی جنگ کو ٹالنے کے لیے پاکستان پر دبائو ڈال کر اور بھارت سے تعلقات کی نارملائزیشن کے لیے مجبور کر کے وہ حقیقت میں جنوبی ایشیا میں طاقت کا اپنا قائم کردہ توازن خراب ہونے سے بچانا چاہتے ہیں۔ نہ جنوبی ایشیا میں انہیں کشمیریوں کی فکر ہے اور نہ ہی مشرق وسطیٰ میں فلسطینیوں کا خیال بلکہ ان کی اصل دلچسپی اپنے دو تزویراتی شراکت داروں سے ہے جو دومحاذوں پر مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔